تعارف وتبصرہ

 

 

 

          نام                :         کلیاتِ نشاط

          شاعر              :         حضرت مولانا مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی

                                      نائب مفتی دارالعلوم دیوبند

          مرتب             :         مولانا صفوان عزیز (فرزندِ ارجمند ، صاحب کلیات)

          صفحات               :         ۲۴۰              قیمت:    ۲۰۰ روپے

          طباعت               :         ۲۰۱۳/ (طبع اوّل)

          ناشر               :         نشاط پبلی کیشنز دیوبند 8449744012

          تبصرہ نگارہ             :         اشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند

          ڈیڑھ صدی سے عالمِ اسلام کے منظرنامے پر ”دیوبند“ کا نام روشن وتابناک ہے، دیوبند کے ذریعہ ایک طرف اسلام کی صحیح اور معتبر تشریح ہوتی ہے تو دوسری طرف متعدد علوم وفنون کی بھی آبیاری ہوتی رہی ہے،ان میں سے ایک اردو زبان وادب ہے، یہاں کے فضلاء میں ایک سے ایک ادیب؛ بلکہ صاحبِ طرز ادیب ملتے ہیں، شعراء کی بھی کمی نہیں، دسیوں صاحبِ دیوان شعراء کا خمیر یہیں سے اٹھا ہے، انھیں میں حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی رحمة اللہ علیہ ہیں، موصوف عثمانی خاندان کے چشم وچراغ تھے، اللہ تعالیٰ نے اس خاندان میں جہاں دوسری خصوصیات رکھی ہیں، ان میں زبان وادب کی سلیقہ مندی بھی ہے، اس خاندان کی عورتیں بھی شعر وسخن کا ذوق رکھتی ہیں، اولین رکنِ شوریٰ؛ بلکہ بانیانِ دارالعلوم میں حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانی ہیں، ان کا ذوقِ ادب بھی بڑا لطیف تھا، اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، مفتیِ اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی کا ذوق بھی بڑاہی صاف ستھرا تھا، تاریخ گوئی میں بھی آپ کو بڑا کمال حاصل تھا، علامہ عامرعثمانی کو کون نہیں جانتا، ان کا شعری مجموعہ: ”وہ قدم قدم بلائیں“ برسوں سے اہلِ ذوق سے دادِ سخن وصول کررہا ہے، ایک موقع سے حضرت مولانا انظرشاہ کشمیری نے ارشاد فرمایا: دیوبند نے شاعر دو ہی پیدا کیے ہیں: ایک عامر عثمانی اور دوسرے نشاط عثمانی۔

          حضرت نشاط عثمانی کی شاعری کوثر وتسنیم سے دُھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے، یہ مشاہدات واحساسات کی سطح پر ماضی کی اقدار اور صالح روایات کے امین ہیں، ماضی وحال سے باخبر ہیں اور مستقبل پر گہری نظر رکھتے ہیں، انھوں نے ”کلیات“ میں اپنے جذبات، خیالات، مشاہدات، تجربات اور محسوسات کا فن کارانہ انداز میں اظہار فرمایاہے، ان کی غزلیہ شاعری اپنی مثال آپ ہے، حضرت نشاط عثمانی کی شاعری میں ادبیاتِ عالیہ اور کلاسیکی ادب کے عمدہ نمونے ملتے ہیں، اشعار میں ذاتی شرافت، شخصی نجابت، قلبی اضطراب اور دردمندی ملتی ہے، انھیں معنویت نے اشعار کی قدر وقیمت بڑھا دی ہے، قاری پڑھ کر مچل جاتا ہے، حضرت نشاط بڑے پُرگو شاعر تھے، زودگوئی بھی ان کی مثالی تھی، مختلف قسم کے اخبارو رسائل میں آ پ کا کلام طبع ہوتا رہتا تھا، مثلاً قومی آواز، راشٹریہ سہارا، دیوبند ٹائمز، پیامِ مشرق، پاکیزہ آنچل،الرشید لاہور، دارالسلام مالیرکوٹلہ، آئینہ دارالعلوم، رسالہ دارالعلوم، ترجمانِ دیوبند، ترجمانِ دارالعلوم، ارژنگِ ادب مہاراشٹر، فروغِ ادب اڑیسہ اور فکر ونظر کشمیر وغیرہ۔

          موصوف کی شاعری سے متاثر ہوکر تبصرہ نگار نے ”ایم، فِل“ میں نشاط کی شاعری کے معروضی اور تجزیاتی مطالعہ کو شامل کیا، اور الحمدللہ کامیابی حاصل ہوئی، یونیورسٹیوں کے حلقوں میں بھی علماء کی شاعری اور ان کی ادبیت کا تعارف ہوا، ارادہ تھا کہ ان اخبار ورسائل میں شائع شدہ غزلوں اور نظموں کو جمع کرکے کلیات ترتیب دوں گا؛ مگر مولانا صفوان عزیز صاحب نے یہ کام کردیا، اور یہ انھیں کا حق تھا، انھوں نے حقِ فرزندی بھی ادا کی ہے اور ماشاء اللہ بڑے سلیقے سے ترتیب دی ہے، اگر کہیں کوئی کتابت کی غلطی نظر آئے؛ تو یہ سمجھیں کہ ”اللہ ہی کی ذات بے عیب ہے“۔

          قارئین کلیاتِ نشاط کہیں تو اقبال کا رنگ وآہنگ محسوس کریں گے، کہیں میر کا اور کہیں زندہ شاعر بشیربدر کا؛ یہ تنوع قارئین کو کھینچ کھینچ کر کلیات کے پڑھنے پر مجبور کرے گا اور اس وجہ سے بھی یہ کلیات دوسری کلیات پر امتیاز رکھتی ہے کہ اس میں شاعر نے شاعری میں ابتذال وفحش گوئی نہیں کی ہے، جو بے ادب ادیبوں کا وطیرہ ہے؛ حضرت نشاط نے انسانی زندگی میں چھپی ہوئی سچائیوں کو بیان کیا ہے، غم والم میں ڈوبے ہوئے نفوس کی بے چینی کو ذکر کیاہے، اور غزل میں ان معانی کو بھی بڑی وسعت سے بیان کیا ہے جن کی نشاندہی حالی نے مقدمہٴ شعروشاعری میں کی ہے۔

          حضرت نشاط فنی لطافتوں سے بھی خوب واقف ہیں، انھوں نے اپنے آہنگ کو موٴثر بنانے کے لیے نہایت ہی زود اثر بحروں کو اپنایا ہے، ان میں بحر ہزج، بحر رمل اور بحر متدارک وغیرہ قابلِ ذکر ہیں، موصوف کے شعری مجموعوں میں ”شناسا“ بھی کافی معیاری ہے، ”نعتِ حضور“ کو بھی بڑا قبول حاصل ہوا، ادبِ اطفال میں ”کلیاں“ کا جواب نہیں ہے۔

          ”کلیاتِ نشاط “ کے قارئین محسوس کریں گے کہ حضرت نشاط اکثر اوقات حالات اور جذبات کی ترجمانی ایسی سہل کرتے ہیں کہ گویا قاری کی بات اسی کی زبان میں کہہ دی، اس طرح سہلِ ممتنع کی مثال بھی ان کی شاعری میں خوب ملتی ہے، مرتب نے بڑی عرق ریزی سے ترتیب دی ہے، کتابت، طباعت، ٹائٹل اور ترتیب سب عمدہ ہیں، انشاء اللہ دوسرے مجموعوں کی طرح؛ بلکہ اس سے زیادہ یہ کلیات قارئین کی بارگاہ میں شرفِ قبول حاصل کرے گی۔

 

----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 98 ‏، رجب 1435 ہجری مطابق مئی 2014ء